-

31 December 2014

apni he sad sonono kahan tak

اپنی ہی صدا سُنوں کہاں تک
جنگل کی ہوا رہوں کہاں تک

دَم گھٹتا ہے ، گھر میں حبس وہ ہے
خوشبو کے لیے رُکوں کہاں تک

پھر آگے ہوائیں کھول دیں گی
زخم اپنے رفو کروں کہاں تک

ساحل پہ سمندروں سے بچ کر
میں نام ترا لکھوں کہاں تک

تنہائی کا ایک ایک لمحہ
ہنگاموں سے قرض لوں کہاں تک

گر لمس نہیں تو لفظ ہی بھیج
میں تجھ سے جُدا رہوں کہاں تک

سُکھ سے بھی تو دوستی کبھی ہو
دُکھ سے ہی گلے ملوں کہاں تک

منسوب ہو ہر کرن کسی سے
اپنے ہی لیے جَلوں کہاں تک

آنچل مرے بھر کے پھٹ رہے ہیں
پھُول اُس کے لیے چُنوں کہاں تک

پروین شاکر
♥♥♥♥♥

No comments:

Post a Comment

Newer post

Followers

♥"Flag Counter"♥

Flag Counter

facebook like slide right side

like our page

pic headar