تم تو وفا شناس و محبت نواز ہو
ہاں میں دغا شعار سہی، بے وفا سہی...
ہاں میں دغا شعار سہی، بے وفا سہی...
تم کو تو ناز ہے دلِ الفت نصیب پر
میں ماجرائے درد سے نا آشنا سہی....
میں ماجرائے درد سے نا آشنا سہی....
نا آشنائے درد کو شکوہ سے کیا غرض
تم کو شکایتِ غمِ فرقت روا سہی...
تم کو شکایتِ غمِ فرقت روا سہی...
تم کو تو رسمِ ظلم و ستم سے ہے اجتناب
تم سر بسر عطا سہی اور میں خطاسہی...
تم سر بسر عطا سہی اور میں خطاسہی...
میں محفلِ نشاط میں نغمہ طرازِ شوق
تم زیرِ لب تبسمِ حسرت نما سہی....
تم زیرِ لب تبسمِ حسرت نما سہی....
تم کو خیالِ غم سببِ اضطرابِ دل
مجھ کو بیانِ درد مسرت فضا سہی....
مجھ کو بیانِ درد مسرت فضا سہی....
تم کو مرا تساہلِ خط وجہِ انتشار
مجھ کو تمہارا طرزِ تغافل ادا سہی....
مجھ کو تمہارا طرزِ تغافل ادا سہی....
میں انتظارِ خط کی صعوبت سے بے خبر
تم انتظارِ خط میں سدا مبتلا سہی...
تم انتظارِ خط میں سدا مبتلا سہی...
میں اشتیاقِ دید و مروت سے بے نیاز
اور تم نگار خانہِ مہر و وفا سہی...
اور تم نگار خانہِ مہر و وفا سہی...
No comments:
Post a Comment